Close Menu

    Subscribe to Updates

    Get the latest creative news from FooBar about art, design and business.

    What's Hot

    Qatil Jinn Zaad A Very Horror Story || Horror Story

    December 17, 2024

    Dead sole Love | Terrible horror story | Horror Story in Urdu & English

    December 16, 2024

    Story of Hazrat Maryam | Bibi Maryam Ka Waqia

    December 15, 2024
    Facebook X (Twitter) Instagram Pinterest YouTube
    Facebook X (Twitter) Instagram Pinterest YouTube
    Urdu Stories Point
    Subscribe
    • Home
    • Horror Story
    • Islamic Story
    • Love Story
    • Moral Story
    • Novel
    • Romantic Story
    Urdu Stories Point
    Horror Story

    Jinn Zaad Ka Qatal A Very Horror Story || Horror Story || Urdu Stories Point

    Urdu Stories PointBy Urdu Stories PointNovember 16, 2024Updated:December 15, 2024No Comments17 Mins Read
    Facebook Twitter Copy Link Pinterest LinkedIn Email WhatsApp
    Jinn Zaad Ka Qatal A Very Horror Story || Horror Story ||
    Jinn Zaad Ka Qatal A Very Horror Story || Horror Story ||
    Share
    Facebook Twitter LinkedIn Pinterest WhatsApp Copy Link

     آج کی کہانی ، جو ایک ایسی بری کہانی ہے جس نے کسی کی زندگی پر اثر ڈالا۔ کبھی کبھی نادانستہ طور پر ہونے والے حادثات ہماری نظروں میں چھوٹے لگنے والے معاملات کو بھی خطرناک نتائج کے ساتھ بڑی غلطیاں ثابت کرتے ہیں۔ آج کی مثال سے سمجھا جائے تو ایک چھوٹی سی چنگاری بھی ایک بڑی آگ کو جنم دے سکتی ہے۔

    بینیا اپنی کالے رنگ کی کرولا گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا اور گھر کی طرف جا رہا تھا۔ گاڑی کے اندر آہستہ میوزک چل رہا تھا اور وہ گاڑی تیزی سے بھگا رہا تھا۔ آج دفتر سے نکلنے میں اسے کچھ دیر ہوگئی تھی اور اب وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے رفتار کو معمول سے تھوڑا زیادہ بڑھا دیا۔ سنسان سڑک اور ٹریفک کی غیر موجودگی نے بھی اسے رفتار بڑھانے پر مجبور کر دیا تھا۔ گھر پر اس کے دو بیٹے، محمد اور احمد، جو بالترتیب سات اور آٹھ سال کے تھے، اس کا انتظار کر رہے تھے۔

    اس کی بیوی رخسانہ قدرتی موت کے ذریعے دو سال پہلے اس کا ساتھ چھوڑ گئی تھی۔ بچوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا خوف اسے دوسری شادی کے خیال سے بھی دور رکھتا تھا۔ اس رات کے سفر میں وہ رخسانہ کے ساتھ گزارے گئے وقت کو یاد کرنے لگا۔ ماں جیسی خوبصورت یادوں کے ساتھ وہ ٹھنڈی آہ بھرتا رہا اور بے قابو آنسو اس کے چہرے پر گرنے لگے۔ رخسانہ ایک ایسی بیوی تھی جس نے ہمیشہ اسے خوشی دی اور محمد اور احمد کی صورت میں اسے دو قیمتی تحفے دیے۔ وہ باوقار، خوش اخلاق، اور مہربان خاتون تھی۔ وہ ایک ایسی شریک حیات تھی جس کی رفاقت اس دنیا میں اس کے لیے جنت سے کم نہیں تھی۔

    یہ خوبصورت یادیں ہی تھیں جن میں وہ کھویا ہوا تھا کہ اچانک ٹائروں کے پھٹنے کی آواز سنائی دی۔ سنسان سڑک پر سناٹا چھا گیا اور اندھیرے کے ماحول میں وہ آواز ایک دھماکے کی مانند تھی جو شاید کئی کلومیٹر تک سنی گئی ہوگی۔ وہ چونک گیا اور خیالی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں واپس آ گیا۔ اس کے ماتھے پر پریشانی کی کئی شکنیں نمودار ہو گئیں۔ اس نے اپنے موبائل کی ٹارچ آن کی اور دھڑکتے دل کے ساتھ گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکل کر ایک ایک کر کے تمام ٹائروں کا معائنہ کیا۔

    جب اسے یقین ہو گیا کہ تمام ٹائر محفوظ ہیں، تو اس نے سکون کا سانس لیا۔ اگر کسی ایک ٹائر میں بھی مسئلہ ہوتا، تو اس حالت میں گاڑی کو گھر لے جانا نہایت مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا۔ دل سے شکر ادا کرتے ہوئے، اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور ایک گہری سانس لی۔ پھر دوبارہ گاڑی میں بیٹھا، مطمئن ہو کر گاڑی اسٹارٹ کی اور آگے بڑھنے لگا۔ شاید اندھیرے میں وہ ٹائروں پر لگے خون کو دیکھ نہ سکا یا جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا۔ اسے تو بس جلدی سے گھر پہنچنا تھا۔

    گھر پہنچ کر اس نے گاڑی کا ہارن دیا۔ کچھ دیر بعد چوکیدار نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے گیٹ کھولا۔ جیسے ہی گیٹ کھلا، دونوں بیٹے دروازے پر غصے بھرے چہروں کے ساتھ اس کے منتظر تھے۔ اس نے گاڑی لان میں پارک کی اور بچوں کے پاس آ کر معذرت کی، لیکن وہ دونوں اس سے خفا تھے۔ بچوں نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا تھا اور وہ والد کے منتظر تھے۔

    بینیا نے دونوں بچوں کو گود میں اٹھایا اور کمرے میں داخل ہوا۔ اس دوران وہ دونوں کے چہروں پر بار بار پیار کرتا رہا۔ کچھ دیر بعد سب نے ہاتھ منہ دھوئے اور ایک ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ اس کی زندگی اس کے بیٹوں کے درمیان تھی اور کیوں نہ ہوتی؟

    دونوں بچے نہایت فرمانبردار اور نیک تھے۔ دونوں دنیاوی تعلیم کے مقابلے میں دینی تعلیم کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اور اسکول جانے کے بجائے مدرسے جانا بہتر سمجھتے تھے۔ وہاں لوگ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے ہوتے۔ ان دونوں بچوں پر یہ اثر ان کی ماں کا تھا، جو خود ایک دیندار خاتون اور مدرسے سے حافظہ تھیں، اسی لیے وہ خاندان کی ذمہ داریوں اور حقوق سے بخوبی واقف تھیں۔

    خیر، یہ ان کا معمول تھا کہ وہ کھانے کے وقت سب مل کر بیٹھتے اور دن بھر کے حالات آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے۔ دن کی باتیں اور خیریت جاننے کے بعد بچوں پر نیند طاری ہونے لگی۔ باپ نے دونوں کو اٹھایا اور ان کے کمروں تک لے گیا۔ پھر انہیں شب بخیر کہہ کر اپنے کمرے کی طرف لوٹ آیا۔

    تھکن کی وجہ سے نیند نے جلدی اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ جیسے ہی اس نے آنکھیں بند کیں، وہ سکون کی وادیوں میں ڈوب گیا، لیکن رات کے کسی حصے میں کسی کے رونے کی آواز سے وہ ڈر کر اٹھ بیٹھا، جیسے کوئی اسے روک رہا ہو۔ یہ کئی آوازیں تھیں، جن میں سب عورتوں کی تھیں۔

    گھبرا کر اس نے پاس پڑی مستطیل کرسی کو حرکت دی، اور ٹیبل پر رکھی پانی کی بوتل اٹھا کر گلاس میں انڈیلی۔ پھر ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گیا۔ اس کے جسم پر پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے۔ پانی پینے کے بعد اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی۔ پھر اس نے ان آوازوں کو وہم سمجھا اور دوبارہ سو گیا۔

    اس بار اس کی آنکھ صبح ہی کھلی۔ دونوں بیٹے اس کے سامنے کھڑے اسے جگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ دونوں کے چہروں پر فکر اور اداسی دیکھ کر وہ فوراً اٹھ بیٹھا اور “گڈ مارننگ” کہہ کر دونوں کو گلے لگا لیا۔ یہ دن کا ایک شاندار اور خوبصورت آغاز تھا، یا شاید نہیں، رات کا۔ وہ تھکن کی وجہ سے بہت زیادہ سو گیا تھا۔

    دونوں بچے اس بات پر خفا تھے کہ وہ وقت پر کیوں نہیں اٹھا۔ اس نے فجر کی نماز بھی ادا نہیں کی تھی۔ اپنی راحت سے مطمئن ہونے کے بعد بچوں نے اسے دوسری بار ٹوکا۔ سستی اور گہری نیند کی وجہ سے فجر کی نماز قضا ہو گئی تھی، جس پر وہ اپنے بچوں کے سامنے شرمندگی سے اپنا چہرہ چھپانے لگا۔ دونوں بیٹوں کے دینی ماحول کی وجہ سے وہ بھی نماز اور روزے کا پابند تھا۔ آج فجر قضا ہونے پر اسے بہت افسوس ہوا۔

    گھر کی ملازمہ نے اس کے لیے ناشتے کا انتظام کر رکھا تھا۔ دونوں بچوں نے اپنے والد کو ناشتے کی میز تک لے جایا۔ اس نے جلدی سے وضو کیا، قضا نماز ادا کی اور محمد اور احمد کے ساتھ ناشتہ کرنے بیٹھ گیا۔ سب نے مل کر ناشتہ کیا۔ بچے مدرسے جانے کی تیاری میں مصروف ہو گئے اور پھر والد نے انہیں مدرسے چھوڑا۔ “خدا حافظ” کہتے ہوئے وہ اپنے کلینک کی طرف روانہ ہوا، لیکن آج کلینک جانے کا دل بالکل نہیں چاہ رہا تھا۔

    اس کی صحت میں عجیب سی بے چینی اور مسئلہ تھا۔ کسی طرح اس نے دو چار گھنٹے گزارے، لیکن بے سکونی محسوس کرتے ہوئے کلینک بند کر دیا اور گھر واپس آ گیا۔ جب وہ گھر پہنچا تو اس کا جسم بخار سے تپ رہا تھا، حالانکہ صبح تک اس کی حالت بالکل ٹھیک تھی۔ لیکن اچانک طبیعت خراب ہونے سے وہ پریشان ہو گیا۔ اس کے چہرے پر پسینے شبنم کی طرح نمایاں تھے۔ ملازمہ نے اس کی فرمائش پر کچھ خاص کھانے کا انتظام کیا، لیکن اس نے کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہ کی۔

    شام تک اس کی حالت مزید بگڑ گئی۔ گھر کے چوکیدار کی مدد سے اسے بستر پر لٹایا گیا۔ دونوں بیٹوں کو جب مدرسے میں ان کے والد کی طبیعت خراب ہونے کی خبر ملی تو وہ فوراً چھٹی لے کر گھر پہنچے۔ والد کی حالت دیکھ کر دونوں بچوں کی پریشانی بڑھ گئی۔ وہ بستر پر لیٹے جیسے تڑپ رہے تھے، جیسے کسی دیوانی عورت کی طرح کروٹیں لے رہے ہوں۔

    دونوں بچوں نے اپنے والد کے موبائل فون سے ان کے قریبی دوست ڈاکٹر ابوجر کا نمبر نکالا۔ ڈاکٹر ابوجر، جو ان کے والد کے جیسے ہی ڈاکٹر اور بہت قریبی دوست تھے، فوراً ان کے گھر پہنچے۔ انہوں نے اپنی طرف سے بہترین دوائیاں اور انجیکشن دیے، لیکن ان کی حالت قابو میں نہ آ سکی۔ آخر کار انہیں درد سے نجات دلانے کے لیے نیند کا انجیکشن دیا گیا۔

    انجیکشن لگنے کے بعد وہ گہری نیند میں چلے گئے، لیکن آس پاس موجود لوگوں کے چہروں پر پریشانی کے آثار اب بھی نمایاں تھے۔ ڈاکٹر ابوجر، اپنے گھر جانے کے بجائے، وہیں بیٹھے رہے۔

    وہ اپنے قریبی دوست ڈاکٹر سائم اور ان کے معصوم بچوں کو اس حالت میں چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے اپنی بیوی سادیہ کو بھی وہاں بلایا۔ وقت گزرنے کے باوجود ڈاکٹر سائم کی طبیعت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ وہ ابھی بھی تپش میں مبتلا تھے۔ کچھ سوچتے ہوئے، بڑے بیٹے احمد نے مدرسے کے مفتی صاحب، اختر علی کا نمبر اپنے موبائل سے نکالا۔ مفتی صاحب حافظ قرآن اور ایک عالم دین تھے۔ ساتھ ہی نورانی علوم پر بھی انہیں خاصا عبور تھا۔ بہت سے لوگ ان سے دم کروانے آتے تھے۔

    احمد خوشی سے واپس آیا اور مفتی صاحب کو اپنے والد کی حالت کے بارے میں بتایا۔ معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مفتی صاحب نے فوراً آنے کا ارادہ کیا۔ انہیں مدرسے سے بلانے کے لیے ایک ڈرائیور بھیجا گیا، جو انہیں گاڑی میں گھر لے آیا۔ اب وہ سب کے سامنے موجود تھے۔

    مفتی صاحب نے ڈاکٹر سائم کے پاس بیٹھ کر کچھ قرآنی آیات پڑھیں، پھر ایک گلاس پانی منگوایا، اس پر آیۃ کریمہ دم کی، اور چند قطرے پانی کے ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر چھڑکے۔ دعا کرتے ہوئے کہا کہ ان شاء اللہ ان کی صحت بہتر ہو جائے گی۔ پھر انہوں نے اپنا ہاتھ ڈاکٹر سائم کے سینے پر رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔

    یہ حالت چھ سے سات منٹ تک جاری رہی۔ اس دوران ان کی زبان سے قرآنی آیات کا ورد ہوتا رہا۔ پھر انہوں نے آنکھیں کھولیں۔ ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ احمد اور محمد نے محسوس کیا کہ سب کے دلوں میں سوالات تھے۔ سب جاننا چاہتے تھے کہ اچانک یہ حالت کیوں ہوئی۔ لیکن مفتی صاحب کسی سے کچھ کہے بغیر اچانک اٹھے اور گیراج میں کھڑی گاڑی کے قریب چلے گئے۔

    وہ ایک ایک کر کے گاڑی کے تمام ٹائروں کو دیکھنے لگے۔ پھر انہوں نے ایک ٹائر پر ہاتھ رکھا اور وہیں بیٹھ گئے۔ اس ٹائر پر اب بھی خون کے دھبے موجود تھے۔ یہ دیکھ کر مفتی صاحب نے کئی بار “إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ” پڑھا۔ پھر وہ سر ہلاتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔

    اب انہیں سب کے سوالات کا جواب دینا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کی گاڑی کے ٹائر تلے جنات کے خاندان کے ایک فرد کو کچل دیا گیا ہے۔ اب اسی جناتی خاندان نے بدلہ لینے کے لیے ڈاکٹر صاحب کو اپنا شکار بنایا ہے اور انہیں تکلیف دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی حالت بگڑ رہی ہے اور جسم میں گرمی محسوس ہو رہی ہے۔

    یہ سن کر سب حیرت سے دنگ رہ گئے۔ کسی نے بھی اس کی توقع نہیں کی تھی۔ اس دوران ڈاکٹر سائم نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ مفتی صاحب کے پوچھنے پر انہوں نے بھی پچھلی رات کا واقعہ دہرایا، جب انہیں کچھ پھٹنے کی آواز سنائی دی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ ان کی لاپرواہی کی وجہ سے کسی جناتی مخلوق کا قتل ہوا ہے۔

    یہ سن کر ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر پریشانی اور خوف کے آثار نمایاں ہو گئے۔ مفتی صاحب نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ وہ جنات کے ساتھ بات چیت کر کے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ دعا کریں گے کہ اس نادانستہ حادثے کو تقدیر سمجھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو معاف کر دیا جائے۔

    مفتی صاحب نے مدرسے کال کی اور استاد صاحب سے اجازت طلب کی تاکہ وہ اس معاملے کو جلد از جلد حل کر سکیں۔ استاد صاحب نے نہ صرف اجازت دی بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ خود اس معاملے پر نظر رکھیں گے تاکہ ڈاکٹر سائم کی حالت مزید خراب نہ ہو۔

    ڈاکٹر صاحب کو ایک سیاہ چادر میں لپیٹ دیا گیا، جو خاص حفاظتی طریقہ تھا۔ مفتی صاحب نے خود کو اذکار کے ذریعے محفوظ کیا اور تسبیح پر کچھ پڑھنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر سائم کے دونوں بیٹوں اور ڈاکٹر ابوزر کی بیوی کو ایک دوسرے کمرے میں بھیج دیا گیا۔

    کچھ ہی دیر میں کمرے سے چیخوں اور آہوں کی بلند آوازیں آنے لگیں۔ یہ دل دہلا دینے والی آوازیں تھیں۔ جنات کی مخلوق نظر نہیں آتی تھی، لیکن مفتی صاحب اپنی نورانی علوم کی مہارت کی وجہ سے انہیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ تمام جنات غصے میں بپھرے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔

    مفتی صاحب نے ان سے مخاطب ہو کر کہا:
    “اے محترم جنات کے گروہ، جو یہاں موجود ہیں، بات سنو!”

    میرے دل میں بے حد خوشی ہے کہ آپ لوگوں نے میری دعوت قبول کی اور اب میں آپ سے آپ کے دکھ اور واقعے کے بارے میں جاننا چاہوں گا، مفتی صاحب نے سوال کیا۔ مفتی صاحب کے سوال کے بعد آوازیں آہستہ آہستہ مدھم ہونے لگیں اور پھر ایک بھاری عورت کی آواز گونجی:

    “میرا نام فاطمہ ہے۔”

    سلام دعا کے بعد بات شروع ہوئی۔ فاطمہ کے ساتھ موجود باقی سب افراد بھی ان کے قبیلے کے لوگ تھے۔ فاطمہ کی آواز میں غم اور غصہ صاف جھلک رہا تھا۔ انہوں نے کہا:
    “اس شخص نے میرے معصوم بچے کی بے عزتی کی، جو کھیلنے کی عمر میں تھا، اور بے رحمی سے اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیا۔ وہ میرا معصوم بیٹا تھا جس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ یہ ایک ناقابل معافی عمل ہے۔ یہ ایک ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں، اور اس کا خمیازہ اسے بھگتنا ہوگا۔ یہ ایسا انجام ہوگا جو نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔ یہ غم اور دکھ جو اس وقت ہمارے دل میں ہے، اس شخص کی نسلوں تک چلتا رہے گا۔”

    فاطمہ کی آواز میں ایک دہاڑ تھی جو شیرنی کی طرح گونج رہی تھی۔ جیسے ہی وہ خاموش ہوئیں، دیگر افراد کی چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ ان کی آوازیں کانوں کے لیے ناقابل برداشت تھیں۔

    اب مفتی صاحب کی باری تھی۔ انہوں نے بات شروع کی:
    “آپ کے دکھ اور نقصان کا احساس مجھے ہے، اور یقیناً یہ بہت بڑا نقصان ہے، جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں، لیکن یہ حادثہ نادانستہ طور پر ہوا۔ سامنے موجود شخص کو آپ کی موجودگی یا آپ کے وہاں سے گزرنے کا کوئی علم نہیں تھا۔ یہ سب انجانے میں ہوا اور اس پر ہمیں افسوس ہے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ بدلے کے بجائے معافی کا ہاتھ بڑھائیں۔”

    مفتی صاحب کسی بھی طرح اس معاملے کو حل کرنا چاہتے تھے تاکہ صورت حال قابو سے باہر نہ ہو۔ لیکن اس وقت نقصان بہت بڑا تھا اور جنات کا قبیلہ کسی صورت یہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ فاطمہ کی آواز غصے سے بھرپور تھی:
    “ہمارا بدلہ جان کے بدلے جان ہے۔ ہمارے دل میں جلتی ہوئی آگ صرف بدلے سے ہی ٹھنڈی ہوگی۔”

    مفتی صاحب نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی اور ہزاروں دلائل دیے، لیکن ان کے بیٹے کی موت نے فاطمہ کو ہر بات سے بے خبر کر دیا تھا۔ بہت کوششوں کے بعد جب معاملہ حل نہ ہوا، تو مفتی صاحب نے اپنے استاد محترم سے رابطہ کیا اور انہیں تمام حالات سے آگاہ کیا۔ استاد محترم نے صورت حال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ایک خاص ورد تجویز کیا۔ انہوں نے رات بھر اس عمل کو جاری رکھا اور بغیر کسی توقف کے آیات پڑھتے رہے۔

    اسی دوران ڈاکٹر کی حالت مزید خراب ہو گئی۔ وہ بے قابو ہو رہی تھیں۔ سب ان کے بستر کے ارد گرد جمع تھے، سب پریشان اور غمگین تھے۔ انہیں سکون بخش انجیکشن دیے جا رہے تھے تاکہ کسی طرح انہیں قابو میں رکھا جا سکے۔

    پھر رات کے آخری پہر، استاد محترم کے سامنے ایک پراسرار شخصیت ظاہر ہوئی۔ وہ مکمل سفید لباس میں ملبوس تھیں، ان کے چہرے پر روشنی اور جلال تھا، اور ان سے آنکھیں ملانا مشکل تھا۔ ان کے سر پر ایک دوپٹہ تھا، اور ان کی شخصیت سے رعب جھلک رہا تھا۔

    انہوں نے استاد محترم سے ملاقات کی وجہ پوچھی۔ استاد محترم نے تمام تفصیلات بتائیں اور مدد کی درخواست کی۔ وہ بزرگ جن نہایت مہربان اور مددگار تھے۔ انہوں نے قبیلے سے بہت درخواستیں کیں اور آخر کار انہیں راضی کر لیا۔ پھر انہوں نے فاطمہ کے سامنے بات کی:
    “بیٹی، انسانوں کے ہاتھوں جو حادثہ آپ کے بیٹے کے ساتھ ہوا، وہ یقینا دردناک ہے۔ مجھے اس واقعے کا مکمل علم ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس میں اس شخص کا کوئی قصور نہیں۔ یہ سب انجانے میں ہوا۔ میری بیٹی، بہتر یہی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اسے معاف کر دو۔ اللہ کے لیے معاف کرنے سے تمہیں اجر ملے گا اور وہ تمہارے دکھ کا ازالہ کرے گا۔”

    بزرگ جن کی بات سن کر فاطمہ کے آنسو نہ رکے۔ وہ مسلسل رو رہی تھیں۔ آخر کار وہ آگے بڑھیں، بزرگ جن کے ہاتھ کو چوم کر اپنے دکھ کا اظہار کیا۔ بزرگ جن انہیں مسلسل تسلی دے رہے تھے۔

    اب ڈاکٹر کے کمرے میں مفتی صاحب، ڈاکٹر ابوزر اور استاد محترم موجود تھے۔ سب دعا گو تھے کہ اللہ بہتر کرے۔

    مفتی صاحب کمرے میں موجود تھے، انہوں نے قرآن پاک کی چند آیات تلاوت کیں، اور گلاس میں موجود پانی پر دم کر کے اسے ڈاکٹر صاحب کو پلایا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ پانی پینے کے بعد ڈاکٹر صاحب بستر سے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ ان کے جسم کا سارا بوجھ، تھکن اور بخار ختم ہو چکا تھا۔ اچانک کمرے میں روشنی پھیل گئی اور وہی بزرگ جن ظاہر ہوئے۔

    انہوں نے کہا:
    “آپ پر اللہ کی سلامتی ہو۔ میرے سمجھانے کے بعد جنات کے اس خاندان نے اللہ کی رضا کے لیے آپ کا جرم معاف کر دیا ہے۔ لیکن آئندہ احتیاط کریں۔ زمین پر انسانوں کی موجودگی کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی اور بھی مخلوقات آباد ہیں، جو آپ سے زیادہ طاقتور ہیں۔ انہیں نقصان پہنچانے سے حتی الامکان گریز کریں۔ اگر آپ نے اپنی جان کا خیال نہ رکھا تو اللہ کے حضور سزا کے مستحق ہوں گے۔ صدقہ دیں اور اللہ کے نام پر خیرات کریں۔”

    ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں شکرگزاری کے آنسو تھے، جو مسلسل بہہ رہے تھے۔ بزرگ جن کا بھی شکر ادا کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے کہہ رہے تھے:
    “مجھے بہت شرمندگی ہے، میں معافی چاہتا ہوں۔”

    پھر بزرگوں کے حکم کے مطابق مدرسے کے طلبہ کے لیے کھانے کا انتظام کیا گیا اور علاقے کے تمام مساکین و غربا میں کھانا تقسیم کیا گیا۔ اس دوران دعائیں بھی کی گئیں۔ دو تین دن کے اندر ڈاکٹر صاحب کی مکمل صحت یابی ہو گئی۔ اب وہ رات کے بجائے دن میں گھر واپس آتے تھے۔ ان کی گاڑی کی رفتار بھی کم ہو گئی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لائل میں دوبارہ کوئی حادثہ ہو۔

    اس کے بعد سب کچھ معمول پر آ گیا۔ ایک رات محمد اور احمد کے کمرے سے آوازیں آنے لگیں، جیسے کوئی کھیل رہا ہو۔ لیکن جب ڈاکٹر صاحب نے دروازہ کھولا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ مسکرائے اور ان دیکھے وجود کو سلام کیا، اور کمرے کا دروازہ دوبارہ بند کر دیا۔ اب انہیں اپنے انجان محسن پر یقین تھا، جو ان کے ایک بیٹے کے بعد، دو بیٹوں، محمد اور احمد، کی صورت میں ان کی زندگی میں شامل ہوا تھا۔

    مفتی صاحب کی بدولت فاطمہ نے انہیں معاف کر دیا تھا، لیکن وہ کبھی کبھار اپنے بیٹے کی جدائی کے غم میں محمد اور احمد سے ملنے آتی تھیں، جس پر ڈاکٹر صاحب کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔

    مفتی صاحب نے مدرسے میں جا کر تمام طلبہ کو خبردار کیا کہ وہ کبھی غلطی سے بھی کسی جانور کو نقصان نہ پہنچائیں، کیونکہ ان کی ایک چھوٹی سی غلطی ان کے لیے وہی مصیبت لا سکتی ہے جو ڈاکٹر صاحب پر آئی تھی۔

    Share. Facebook Twitter Pinterest LinkedIn Email WhatsApp Copy Link
    Next Article Aabro Lutti Hostel Mein || A True Love Story || A Moral Story || Urdu Stories Point
    Urdu Stories Point
    • Website

    Related Posts

    Horror Story

    Qatil Jinn Zaad A Very Horror Story || Horror Story

    December 17, 2024
    Horror Story

    Dead sole Love | Terrible horror story | Horror Story in Urdu & English

    December 16, 2024
    Horror Story

    Aasebi Maskan | A Very Horror Story | Horror Story | Urdu Stories Point

    December 1, 2024
    Leave A Reply Cancel Reply

    Latest Posts

    Qatil Jinn Zaad A Very Horror Story || Horror Story

    December 17, 20242 Views

    Dead sole Love | Terrible horror story | Horror Story in Urdu & English

    December 16, 20240 Views

    Story of Hazrat Maryam | Bibi Maryam Ka Waqia

    December 15, 20243 Views

    Shadi Karoon Gi Tu Isi Se | A moral Love Story

    December 15, 20241 Views
    Don't Miss

    Muhabbat ki Saza – Urdu Stories Point | Sad Love Story | Urdu & English

    By UrdustoriespointNovember 28, 2024

    میں ملتان کا رہاشی تھا، 9 سال پہلے، 2014 میں، میرے دوست نے مجھے فیس…

    Leak Video ki Kahani | Sabak Amoz Kahani | Urdu & Hindi & English- Moral & Heart Touching Urdu Kahani

    November 28, 2024

    Jinn Zaad Ka Qatal A Very Horror Story || Horror Story || Urdu Stories Point

    November 16, 2024
    Stay In Touch
    • Facebook
    • Twitter
    • Pinterest
    • Instagram
    • YouTube
    • Vimeo

    Subscribe to Updates

    Get the latest creative news from SmartMag about art & design.

    About Us
    About Us

    Your source for the lifestyle news. This demo is crafted specifically to exhibit the use of the theme as a lifestyle site. Visit our main page for more demos.

    We're accepting new partnerships right now.

    Email Us: info@example.com
    Contact: +1-320-0123-451

    Facebook X (Twitter) Pinterest YouTube WhatsApp
    Our Picks

    Qatil Jinn Zaad A Very Horror Story || Horror Story

    December 17, 2024

    Dead sole Love | Terrible horror story | Horror Story in Urdu & English

    December 16, 2024

    Story of Hazrat Maryam | Bibi Maryam Ka Waqia

    December 15, 2024
    Most Popular

    Muhabbat ki Saza – Urdu Stories Point | Sad Love Story | Urdu & English

    November 28, 2024206 Views

    Leak Video ki Kahani | Sabak Amoz Kahani | Urdu & Hindi & English- Moral & Heart Touching Urdu Kahani

    November 28, 202486 Views

    Jinn Zaad Ka Qatal A Very Horror Story || Horror Story || Urdu Stories Point

    November 16, 202451 Views
    © 2025 Aman. Designed by AmanOnlineServises.
    • Home
    • Horror Story
    • Islamic Story
    • Love Story
    • Moral Story
    • Novel
    • Romantic Story

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.